Wednesday, 26 December 2018

Quaid Azam


”وہ کسی خلل کے بغیر تقریباً دو گھنٹے تک گہری نیند سوتے رہے۔ پھر انہوں نے آنکھیں کھولی، مجھے دیکھا اور سر اور آنکھوں سے مجھے اپنے پاس بلایا، انھوں نے بات کرنے کی آخری کوشش کی اور سرگوشی کے انداز میں کہنے لگے: ” فاطی، خدا حافظ! لا الہ الاللہ۔ محمد۔ الرسول۔ اللہ“ اور ان کا سر آہستگی سے قدرے دائیں جانب ڈھلک گیا۔ ان کی آنکھیں بند ہو گئیں
مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی کتاب ”میرا بھائی“ کا ایک اقتباس
ایک دفعہ علماء کا ایک وفد قا ئداعظم کے پاس آئے اور کہا کہ ہم آپ کو ووٹ نہیں دینگے کیونکہ آپ شیعہ ہو، تو قائداعظم نے کہا جا کر گاندھی کو ووٹ دو وہ شیعہ نہیں ہے، میرے پیارے قائد کو تحریک پاکستان کے دنوں میں بھی مخالفین اسی طرح کی بکواس کیا کرتے تھے، جماعت اسلامی اور جے یو آئی والے تو یہاں تک کہتے کہ قائداعظم کو تو غسل کے فرائض بھی نہیں آتے، اور ایک ناپاک شخص پاکستان بنانے چلا ہے۔۔۔
لیکن پچھلے ستر سال سے انہی لوگوں نے جن حرامزادوں کو حکمران بنائے رکھا، ان لوگوں سے اپنے ووٹ کے تقدس اور قومی خزانے کی امانت کی رکھوالی کا سوال نہیں کیا۔ !!!
جناح اور تحریک پاکستان کے قائدین اور نظریات کی برعکس مولانا مودودی کبھی بھی اس سیاسی مؤقف کے حق میں نہ تھا کہ "جہاں مسلمانوں کی اکثریت ھو وہاں وہ حکومت بھی کریں". بلکہ ان کی نظر میں اگر پاکستان ایک ایسی ریاست ہو جس میں مغربی جمہوریت نافذ ھوگی تو وہ "پاکستان اتنی ہی نجس اور ناپاک پاکستان ھوگی جتنے برصغیر کے دوسرے حصے." مولانا کے مطابق "خدا کی نظر میں مسلم نیشنلزم اتنی ہی لعنتی ھے جتنی انڈین نیشنلزم." مولانا کی نظر میں بانی پاکستان "مسٹر جناح بنیادی اسلامی تعلیمات سے جاھل تھا اور ھندی مسلمانوں کو گمراہ کرنے کا مجرم." جبکہ" مسلم نیشنلسٹ ایسا ھی متناقض ترکیب ھے جیسے پاکیزہ طوائف Chaste Prostitue". ( کمال کی تشبیہ دی ھے) Nationalism and India....... مودودی صاحب نے مسلم لیگی قیادت بشمول جناح کو "اخلاقی مردے" قرار دیا جن کو اپنی تحریک کو اسلامی کہنے کی کوئ حق حاصل نہیں."(مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش)
اسلئے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اس" مقدس کسبی" جیسے پاکستان کہا جاتا تھا کی مخالفت میں کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا.
یہ قیام پاکستان 1947 تک مولانا کے نظریات تھے.
قیام پاکستان کے بعد......... مولانا اسی "مقدس طوائف" پاکستان کو بھاگ آیا.
گو کہ مُفتی محمود پاکستان بننے کے مُخالف تھے، قائداعظم کے بھی مخالفین میں سے تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے پاکستان میں رہنا پسند کیا۔ کاش اس وقت وہ انڈیا رہنے کا فیصلہ کر لیتے تو فُضلے جیسا عذاب پاکستان کے حصے میں نہ آتا۔لیکن بہر طور مُفتی محمود کی سیاسی زندگی سے قطع نظر ان کی علمی زندگی کی داد دینا بنتی ہے۔ قادیانیت کو کھڈے لائن لگانے کے لیے ان کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔لیکن اُن کی قیامِ پاکستان کی مُخالفت اور قائداعظم پر کُفر کے فتوی لگانے والوں کے ساتھ کھڑا ہونا میرے رب کو قطعی پسند نہیں آیا اور اُسی کی سزا مولبی پھجلو اور اُس کے بھائی عطاء الرحمٰن کی شکل میں مُفتی صاحب کو ملی۔ آج یہ نام نہاد عالم، مُفتی محمود کے نام پر کلنک بن چکا ہے۔قائداعظم کا سب سے بڑی کامیابی یہی تھی کہ اس نے زندگی میں ایک دن بھی جیل نہیں کاٹی جبکہ ان کے ہمعصر سرحد کے گاندھی باچا خان ان کے فرزند ولی خان،مفتی محمود،مولانا مودودی،گاندھی وغیرہ جیل کاٹ بھی چکے ہیں اور وہ اس پر فخر بھی کرتے ہیں



No comments:

Post a Comment